ایک اٹل حقیقت
جب سے آدم�نے اس دنیا میں قدم رکھا تو اس کے بعد انسانوں کے دو گروہ وجود میں آگئے۔ایک توحید کا علمبردار اور اللہ رب العزت کا وفادار گروہ ہے جوکہ ''مسلمان'' کہلایا اور دوسرا اللہ کی و حدانیت کے انکار ی اور اس سے باغی گروہ ہے جس کو شرعی اصطلاح میں'' کافر ''کہا جاتا ہے۔اس حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتاہے:
﴿ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ﴾
''وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافرہے اور کوئی مومن''
(التغابن:۲)
توجولوگ اللہ کی وحدانیت کے اور اس کے رسولوں کے اور ان کی لائی ہوئی شریعت کے کافرہوگئے تو اللہ کی نگاہ میں وہ سب سے بدترین مخلوق ٹھہرے، اور جنہوں نے اللہ کی واحدانیت کا اور رسولوں کی رسالت کااقرار کیا اوراللہ کی عطاکردہ شریعت کی پاسداری کی تووہ سب سے بہترین مخلوق قرار پائے۔قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتاہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اُولٰٓئِکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ™اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ™﴾
''بے شک جنہوں نے کفر کیا چاہے وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی لوگ سب سے بدترین مخلوق ہیں۔بے شک جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کئے تو وہی لوگ بہترین مخلوق ہیں''۔
(البینة:۶۔۷)
حقیقت میں بہترین مخلوق تو وہ قرار پائے جو ایمان لے آئے مگر جنہوں نے انکار کیا تووہ تمام مخلوقات میں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی بدترین مخلوق ٹھہرے۔اسی حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
﴿ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ﴾
''بے شک اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے بدترین وہ ہیں جوکفر کریں ،پھر وہ ایمان نہ لائیں''۔
(الانفال:۵۵)
﴿ اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾
''یہ(کافر)جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر''۔
(الاعراف:۱۷۹)
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے یہود کے قبیلے بنوقریظہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
((یا اخوة القردة والخنازیر))
''اے بندراور خنزیروں کے بھائیوں!''۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،ج۱۰،ص۱۱۷،رقم الحدیث:۴۳۰۱)
حضرت عمر �نے صلح حدیبیہ کے وقت حضرت ابوجندل �کو جب ان کے باپ ان کوقید کرکے واپس مکہ لے جارہے تھے تو ان کی طرف تلوار کا دستہ کرکے ارشاد فرمایا تھا:
((أَنَّ دَمَ الْکَافِرِ عِنْدَ اللَّہِ کَدَمِ الْکَلْبِ))
''اور بے شک کافر کا خون اللہ کے نزدیک کتے کے خون جیساہے (کہ جس کے مارنے میں کوئی حرج نہیں)''۔
(فتح الوھاب،ج۲ص۳۲۰)
ان حقائق کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوئی کہ حقیقت میں اس دنیامیں اُس انسان کو جینے کا حق حاصل ہے جوکہ کلمہ توحیدیعنی اللہ کی واحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کااقرار کرتے ہوئے اسلام کے دائرے کے اندر آجائے،تو جس نے یہ اقرار کیا تو اس کا مال وجان اور عزت محفوظ ومامون ہوگئی اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کے مال وجان اورعزت کی کوئی حیثیت اورحرمت نہیں ۔یہی وہ حقیقت تھی جس کو سمجھانے کے لئے انبیاء ورسل آتے رہے اور یہی وہ منہج تھا جس پر رسول اللہﷺبھی کاربند ہوئے:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلَہَ الَّا اللَّہُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی نَفْسَہُ وَمَالَہُ اِلَّا بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ))
''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہہ دیں۔پس جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تو اس نے اپنے مال اور جان کو مجھ سے بچالیا ،مگر یہ کہ کسی حق کے بدلے میں،اور اس کا باقی حساب اللہ پر رہے گا''۔(صحیح البخاری،ج۱۰،ص:۹۷،رقم الحدیث:۲۷۲۷)